کینسر بھگاؤ زندگی بچاؤ
کوہ سلیمان کے
سنگلاخ پہاڑوں میں پلنے والا بچہ ایک پرسکون اور مہرو وفا کی آزان کے ساتھ بلوچ
معاشرے میں ایک نواب کی طرح پاؤں رکھتا ہے,جس کا استقبال گولیوں کی گھن گرج اور
دلفریب بلوچی رقص کے ساتھ سرخ خون کی قربانیوں سے کیا جاتاہے,وہ ایک انسانیت پرست
سوشلسٹ سٹریکچر کے ایسے خاندان کا وارث ہوتاہے,جس سے یہاں کے ہر انسان کے لیے فیض
کا چشمہ رواں ہوجاتا ہے,جو بلوچ معاشرے کے عظیم روایات کو اپنے زات اور مفاد سے
بڑھ کر عزیز رکھتاہے,ایسے معاشرے کے مہمان نوازی,وطن داری اور ننگ ناموس جیسے وہ
عظیم روایات جسے آباؤ اجداد نے خون دے کر پالا ہو.پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں سنادی
جاتی ہیں,جیسے کسی عہدے کا حلف لیا جاتا ہے,
جب یہ
نوجوان ایسے معاشرے میں کئی تکالیف اور ضروریاتِ زندگی کی تمام سہولیات سے محروم
بھوک و افلاس سے جنگ لڑ کر خوداری سے جینے کی کوشش کرتا ہے,دنیا سے کئی صدیوں پیچھے
اور قدرتی وسائل سے مالہ مال سرزمین کا یہ نوجوان ایک طرف تو کئی معاشی مسائل میں
گھراہوتا ہے,تو دوسری طرف ایک ایسی موت لیوا بیماری اس کی نسلوں کو جڑ سے اکھاڑنے
کے لیے ایک بڑے ڈینڑ کی شکل میں نمودار ہوتا ہے,جو اسے صفہ ہستی سے مٹانے کی پرزور
صلاحتیوں سے لیس ہے,جسے دنیا کینسر کے نام سے جانتی ہے,یہ ہوا اور پانی میں گھلے
ہوئے زہر کی مانند ہے,جو انتہائی تیزی کے ساتھ یہاں کی نسلوں کے لیے خطرہ بن گیاہے,یہاں
سے نکلے ہوئے یورینیم سے
دشمن کی نسلیں مٹیں یا نہ مٹیں,مگر یہ زہر اس خطے کی نسلوں کے پھلنے پھولنے کے لیے
بہت بڑا خطرہ ہے,جس سرزمین نے اپنا سینہ چیر کر اپنے نومولود بچوں کی زندگیوں کو
داؤ پر لگا کر اسے یہ نعمت عطاکی,جو خود اس کے لیے زحمت ثابت ہوئی ہے,
Koh-e-Suleman deprived of facilities and silent death Cancer |
مالہ
مال بلوچ خطے کی تعلیمی صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے,کہ اتنے بڑے
رقبے پہ محیط ریجن میں صرف چند پرائمری اور مڈل سکولز ہیں,
یہاں
کی صحت کی صورتحال کی بات کی جائے تو کوئی طبعی امداد کی ڈسپنسری تک موجود نہیں,اور
امراض کی بات کی جائے تو کینسر سمیت کئی موزی امراض یہاں کے لوگوں کے وجود کے لیے
خطرہ ہیں,یہاں کئی قیمتی جانیں کینسر کی نظر ہوچکی ہیں,کئی ایسے لوگ ہیں,جو اس سے
تڑپ رہے ہیں,ایسے میں اس خطے کے اندر جو چند ایک ہسپتال ہیں,ان میں کینسر کا وارڈ
تک موجود نہیں,تو یہاں کے نام نہاد وڈیروں اور سرداروں کو اس کے لیے بلوچ
ورنا(نوجوان) کے ساتھ مل کر اپنی آنے والے نسلوں کی بقاء کے لیے آواز بلند کرنا
پڑے گا,
یہ مہلک بیماری ہماری نسلوں کی افزائش کے خلاف
نسلی کشی کا کردار ادا کرے گا,بغل چر سے یورنیم نکال کر اور یورینیم کے
فیشن ری ایکشن سے پیدا ہونے والے خطرناک شعائیں ہمیں پہلے پہل متاثر کرتی رہیں,اس
کے بعد اس کے تمام ویسٹ مٹیریلز کو یہاں کھلے جگہوں پہ پھینک کر کینسر پھیلایا گیا,جو
پانی کے ندیوں میں شامل ہوکر اہل وطن کے لیے زہر ثابت ہوئیں,یہاں کے انسان اور
جانور انہی ندیوں کا پانی بغیر کسی فلٹریشن کے استعمال کرتے ہیں,جو یہاں کینسر کا
سبب بن رہی ہے,
جس
سے ہزاروں قیمتی جانیں کینسر کی نظر ہوچکی ہیں,اور اب ہمارے ہر نوجوان کی زندگی کو
یہ خطرہ لاحق ہے,اس غیر قانونی طریقے کار کے خلاف کچھ نوجوان عدالتوں کے دروازوں
پہ بھی دستک دے چکے,مگر اس کیس کو بھی ایک کاغذ کا ٹکڑا سمجھ کر ردی کی ٹوکری میں
پھینک دیاگیا,حکومت کو آنے والی نسلوں کی بقاء کے لیے یہاں کینسر کے ہسپتال فلٹر
پلانٹ اور تحصیل تونسہ اور ڈی جی خان کے ہسپتالوں میں کینسر کے وارڈ بناکر یہاں کے
لوگوں کو جینے کا حق دینا چاہیے,اور کینسر سے بچاؤ کے لیے ویسٹ مٹیریل کو نان ایکٹو
کر کے زیر زمین بین الاقوامی جوہری قانون کے مطابق زیر زمین دفن کرنے کی پالیسی کو
اپناکر یہاں کی نسلوں کو ان مہلک و موزی امراض سے پاک کرنا چاہیے۔
Koh-e-Suleman deprived of facilities and silent death cancer |
Koh-e-Suleman deprived of facilities and silent death cancer
0 Comments